اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں
دم جو گھٹتا ہے محبت میں خفا ہوتے ہیں
ہم فقیرانہ غزل کہتے ہیں اے شاہ جہاں
خیر ہو خیر ہو مصروف دعا ہوتے ہیں
بحر عالم میں یہ انسان ہیں مانند حباب
دم میں بنتے ہیں یہ دم بھر میں فنا ہوتے ہیں
ہم غریبوں کو نہ اس بزم سے اٹھوا اے بت
صحبت عام میں خاصان خدا ہوتے ہیں
ہم میں اور ان میں بڑھا رابطہ اخترؔ اتنا
ہم پہ وہ صدقے ہیں ہم ان پہ فدا ہوتے ہیں
غزل
اے نسیم سحری ہم تو ہوا ہوتے ہیں
واجد علی شاہ اختر