اے جذب محبت تو ہی بتا کیوں کر نہ اثر لے دل ہی تو ہے
سیدھی بھی چھری ٹیڑھی بھی چھری دل دوز نظر قاتل ہی تو ہے
جب ہوک اٹھے گی تڑپے گا انصاف نہ چھوڑو دل ہی تو ہے
ناچند تھکن کا صبر و سکوں بسمل آخر بسمل ہی تو ہے
طوفان بلا کی موجوں میں کیں بند آنکھیں اور پھاند پڑے
کشتی نے جہاں ٹکر کھائی دل بول اٹھا ساحل ہی تو ہے
ہے ظرف یہاں کس کا کتنا دل بس ہے اسی کا پیمانہ
رونا بھی برا ہنسنا بھی برا جو بات ہے وہ مشکل ہی تو ہے
ناخوش ہے تو کیا ہے خوش ہے تو کیا جیسا بھی سہی ہے تو اپنا
یہ ساتھ نہیں چھٹنے والا بے کس کا سہارا دل ہی تو ہے
ہیں موت کے اس جینے میں مزے غم جس کو نہ ہو وہ کیا سمجھے
جب ثابت کرتے بن نہ پڑے جو دعویٰ ہے باطل ہی تو ہے
تھی خضر طریق افتاد یہاں اور سنگ حوادث سنگ نشاں
حد راہ طلب کی آ گئی ہاں جاتا ہے کہاں منزل ہی تو ہے
دکھ دے کے الٹے دینا کیا فریاد نتیجہ ہے غم کا
جب ٹھیس لگی شیشہ ٹھنکا پتھر نہ سمجھئے دل ہی تو ہے
آپ آرزوؔ اب خاموش رہیں کچھ اچھی بری کھل کر نہ کہیں
ہیں جتنے منہ اتنی باتیں محفل آخر محفل ہی تو ہے
غزل
اے جذب محبت تو ہی بتا کیوں کر نہ اثر لے دل ہی تو ہے
آرزو لکھنوی