اے انتظار صبح تمنا یہ کیا ہوا
آتا ہے اب خیال بھی تیرا تھکا ہوا
پہچان بھی سکی نہ مری زندگی مجھے
اتنی روا روی میں کہیں سامنا ہوا
چمکا سکے نہ تیرہ نصیبوں کی رات کو
ہم راز ہیں ترے مہ و انجم تو کیا ہوا
مجھ سے کہیں ملا غم دوراں تو اس طرح
جیسے مری طرح سے ہے وہ بھی تھکا ہوا
جامیؔ فضائے موسم گل یوں اداس ہے
جیسے کہیں قریب کوئی حادثہ ہوا
غزل
اے انتظار صبح تمنا یہ کیا ہوا
خورشید احمد جامی