اے ہم نفس اس زلف کے افسانے کو مت چھیڑ
بس سلسلہ جنباں نہ ہو دیوانے کو مت چھیڑ
جس رنگ سے ہے دل میں مرے عشق رخ یار
ناصح نہ ہو دیوانہ پری خانے کو مت چھیڑ
وہ شمع مجالس تو ہے فانوس میں روشن
اے عشق تو مجھ سوختہ پروانے کو مت چھیڑ
تو آپ ہے پیماں شکن اس دور میں ساقی
کہتا ہے مجھے بزم میں پیمانے کو مت چھیڑ
تروار سے کیا ہم کو ڈراتا ہے میاں جا
یاں آپ سے موجود ہیں مر جانے کو مت چھیڑ
ہمدم نہ کہہ اس وقت کہ بوسے کی طلب کر
مجلس میں مجھے گالیاں دلوانے کو مت چھیڑ
منظور اگر چھیڑ ہنسی کی ہے تو پیارے
ہوتے محبؔ اپنے کے تو بیگانے کو مت چھیڑ
غزل
اے ہم نفس اس زلف کے افسانے کو مت چھیڑ
ولی اللہ محب