اے گرد باد طرف چمن ٹک گزار کر
بلبل کے پر پڑے ہیں گلوں پر نثار کر
آئے تھے عیش کے لیے سو تو نہ یاں ملا
پھر غم کدہ کو اٹھ چلے ہم اپنے ہار کر
کیا مسکرا کے ٹالے ہے اب پھر کب آئے گا
دل بیقرار ہوتا ہے کچھ تو قرار کر
داغوں سے دل کے سینہ تو ہے رشک لالہ زار
ہاں اشک سرخ تو بھی تو اپنی بہار کر
دھجی بھی ایک چھوڑی نہ دامان و جیب کی
دست جنوں نے لوٹا مجھے تار تار کر
وہ بھی نہ آیا اور نظر آنے سے رہ گیا
دیکھا مزا نہ اور دل اب انتظار کر
بے چیز تو نہیں یہ حسنؔ اس گلی میں روز
جا جا کے بات کرتے ہر اک سے پکار کر
غزل
اے گرد باد طرف چمن ٹک گزار کر
میر حسن