EN हिंदी
اے بت جو شب ہجر میں دل تھام نہ لیتے | شیح شیری
ai but jo shab-e-hijr mein dil tham na lete

غزل

اے بت جو شب ہجر میں دل تھام نہ لیتے

منیرؔ  شکوہ آبادی

;

اے بت جو شب ہجر میں دل تھام نہ لیتے
کلمہ میں بھی ہوتا تو ترا نام نہ لیتے

ضد پر اگر آ جائیں ہم اے رشک مسیحا
مر جاتے مگر منہ سے ترا نام نہ لیتے

کامل کوئی ملتا جو خریدار دل و جاں
یہ جنس یونہی بیچتے ہم دام نہ لیتے

کیوں حشر میں دیوانہ ہمیں کہہ کے پکارا
نفرت تھی تو اب بھی وہ مرا نام نہ لیتے

وحشت کدۂ دہر میں چلتا جو بس اپنا
دشمن سے محبت کے سوا کام نہ لیتے

جاروب کشی ملتی اگر کرب و بلا کی
ہاتھوں سے منیرؔ اور کوئی کام نہ لیتے