اہل ظاہر کو فن جلوہ گری نے مارا
اہل باطن کو توانا نظری نے مارا
تلخ تھی موت مگر زیست سے شیریں تر تھی
اس سے پوچھو جسے بے بال و پری نے مارا
مندمل ہوتے ہوئے زخم ہرے ہونے لگے
سائے سائے میں تری ہم سفری نے مارا
دشت غربت کے شب و روز کی لذت نہ ملی
سر وطن میں بھی بہت در بہ دری نے مارا
عشق اور دست طلب ایسی بھی کیا مجبوری
شوق کو کاوش دریوزہ گری نے مارا
زخم پارینہ بھرا ہی تھا کہ اے سوزن حال
اور اک تیر تری بخیہ گری نے مارا
داد و شمشیر نے جب جب بھی ڈرانا چاہا
قہقہہ شوق کی شوریدہ سری نے مارا
صلح کرنا تو زمانے سے ہے آساں لیکن
مجھ کو زیدیؔ مری بالغ نظری نے مارا
غزل
اہل ظاہر کو فن جلوہ گری نے مارا
علی جواد زیدی