اہل نظر کی آنکھ میں حسن کی آبرو نہیں
یعنی یہ گل ہے کاغذی رنگ ہے جس میں بو نہیں
دل کو نہ رنج دیجئے شوق سے ذبح کیجئے
آپ کی تیغ تیغ ہے میرا گلو گلو نہیں
دشمن و دوست کے لیے چاہئے شکر تیغ ناز
کون ہے قتل گاہ میں آج جو سرخ رو نہیں
آپ سے دل لگاؤں کیوں جور و ستم اٹھاؤں کیوں
اب تو سکوں سے کام ہے درد کی جستجو نہیں
بزم سخن میں اے رشیدؔ نغمہ سے مجھ کو کام کیا
شاعر شوخ فکر ہوں مطرب خوش گلو نہیں
غزل
اہل نظر کی آنکھ میں حسن کی آبرو نہیں
رشید رامپوری