اہل ایماں سے نہ کافر سے کہو
اے بتو لیکن خدا لگتی کہو
گر ملیں یاران رفتہ پوچھیے
مر گئے پر کس طرح گزری کہو
پائمالو عشق میں کیوں کر کٹی
کوہ کن سے سرگزشتے اپنی کہو
چشم تر پر دجلہ و جیحوں میں کیا
ابر سی چھا جائے جو پھبتی کہو
شمع و پروانہ جو پوچھیں سوز عشق
اپنی بیتی یا مری بیتی کہو
پیٹ پیچھے بد کہو اے آئنو
روبرو اس کے نہ منہ دیکھی کہو
منہ لپیٹے گوشۂ مرقد میں شادؔ
کیوں پڑے چپ ہو ہے کیسا جی کہو
غزل
اہل ایماں سے نہ کافر سے کہو
شاد لکھنوی