اہل فن اہل ادب اہل قلم کہتے رہے
بد زباں کو ہم زبان دان عجم کہتے رہے
جبر و استبداد کو جود و کرم کہتے رہے
صبر و طاعت کو علاج درد و غم کہتے رہے
ہم کو ہر محفل میں تھا آداب محفل کا خیال
احتراماً ہر کسی کو محترم کہتے رہے
چشم پوشی سے ریا کاری کو شہہ ملتی رہی
عیب پوشی کو شرافت کا بھرم کہتے رہے
آبروئے مذہب و ملت بھی رکھنی تھی ضرور
ننگ منبر کو بھی ہم شیخ حرم کہتے رہے
وہ بھی نکلے رہنماؤں کے نقوش کجروی
جن کو راہی راستے کے پیچ و خم کہتے رہے
بارہا دیکھا ہے ماہرؔ ان کو مغموم و ملول
ہم جنہیں پروردۂ ناز و نعم کرتے رہے

غزل
اہل فن اہل ادب اہل قلم کہتے رہے
اقبال ماہر