عہد گم گشتہ کی نشانی ہوں
ایک بھولی ہوئی کہانی ہوں
وہ خوشی ہوں جو درد سلگائے
آگ جس سے لگے وہ پانی ہوں
ایک آنسو ہوں چشم عشرت کا
زیست کا رنج شادمانی ہوں
اپنی بربادیوں پہ یاد آیا
کتنی آبادیوں کا بانی ہوں
سینۂ دشت پر ہوں موج سراب
خشک دریاؤں کی روانی ہوں
آئنہ خانۂ زمانہ میں
عکس اپنا ہوں اپنا ثانی ہوں
اک تبسم کی آس میں راہیؔ
کب سے محروم شادمانی ہوں

غزل
عہد گم گشتہ کی نشانی ہوں
راہی قریشی