اگرچہ روز مرا صبر آزماتا ہے
مگر یہ دریا مجھے تیرنا سکھاتا ہے
یہ کیا گھٹن ہے محبت کی پہرے داری میں
وہ کاغذوں پہ کھلی کھڑکیاں بناتا ہے
اسے پتا ہے کہاں ہاتھ تھامنا ہے مرا
اسے پتا ہے کہاں پیڑ سوکھ جاتا ہے
میں اس کی نظروں کا کچھ اس لئے بھی ہوں قائل
وہ جس کو چاہے اسے دیکھنا سکھاتا ہے
غزل
اگرچہ روز مرا صبر آزماتا ہے
رانا عامر لیاقت