اگرچہ مجھ کو جدائی تری گوارا نہیں
سوائے اس کے مگر اور کوئی چارہ نہیں
خوشی سے کون بھلاتا ہے اپنے پیاروں کو
قصور اس میں زمانے کا ہے تمہارا نہیں
تمہارے ذکر سے یاد آئے کیا گھٹا کے سوا
ہمارے پاس کوئی اور استعارا نہیں
یہ التفات کی بھیک اپنے پاس رہنے دے
ترے فقیر نے دامن کبھی پسارا نہیں
مرا تو صرف بھنور تک سفینہ پہنچا ہے
تجھے تو ڈوبنے والوں نے بھی پکارا نہیں
ہر ایک ربط ترے واسطے سے تھا ورنہ
بھرے جہاں میں کوئی آشنا ہمارا نہیں
جو تیری دید نے بخشے وہی ہیں زخم بہت
اب اپنے دل میں کوئی حسرت نظارہ نہیں
بنا سکوں جسے جھومر تمہارے ماتھے کا
فلک پہ آج بھی ایسا کوئی ستارا نہیں
چلائے جاؤ قتیلؔ اپنا کاروبار وفا
جو اس میں جان بھی جائے تو کچھ خسارا نہیں
غزل
اگرچہ مجھ کو جدائی تری گوارا نہیں
قتیل شفائی