EN हिंदी
اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے | شیح شیری
agarche ishq mein aafat hai aur bala bhi hai

غزل

اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے

انعام اللہ خاں یقینؔ

;

اگرچہ عشق میں آفت ہے اور بلا بھی ہے
نرا برا نہیں یہ شغل کچھ بھلا بھی ہے

اس اشک و آہ میں سودا بگڑ نہ جائے کہیں
یہ دل کچھ آب رسیدہ ہے کچھ جلا بھی ہے

یہ آرزو ہے کہ اس بے وفا سے یہ پوچھوں
کہ میرے بے مزا رکھنے میں کچھ مزا بھی ہے

یہ کون ڈھب ہے سجن خاک میں ملانے کا
کسو کا دل کبھو پانو تلے ملا بھی ہے

یقیںؔ کا شور جنوں سن کے یار نے پوچھا
کوئی قبیلۂ مجنوں میں کیا رہا بھی ہے