EN हिंदी
اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے | شیح شیری
agar is khel mein ab wo bhi shamil hone wala hai

غزل

اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے

ظفر اقبال

;

اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے
تو اپنا کام پہلے سے بھی مشکل ہونے والا ہے

ہوا شاخوں میں رکنے اور الجھنے کو ہے اس لمحے
گزرتے بادلوں میں چاند حائل ہونے والا ہے

اثر اب اور کیا ہونا تھا اس جان تغافل پر
جو پہلے بیش و کم تھا وہ بھی زائل ہونے والا ہے

زیادہ ناز اب کیا کیجیے جوش جوانی پر
کہ یہ طوفاں بھی رفتہ رفتہ ساحل ہونے والا ہے

ہمیں سے کوئی کوشش ہو نہ پائی کارگر ورنہ
ہر اک ناقص یہاں کا پیر کامل ہونے والا ہے

حقیقت میں بہت کچھ کھونے والے ہیں یہ سادہ دل
جو یہ سمجھے ہوئے ہیں ان کو حاصل ہونے والا ہے

ہمارے حال مستوں کو خبر ہونے سے پہلے ہی
یہاں پر اور ہی کچھ رنگ محفل ہونے والا ہے

چلو اس مرحلے پر ہی کوئی تدبیر کر دیکھو
وگرنہ شہر میں پانی تو داخل ہونے والا ہے

ظفرؔ کچھ اور ہی اب شعبدہ دکھلائیے ورنہ
یہ دعوائے سخن دانی تو باطل ہونے والا ہے