EN हिंदी
ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی | شیح شیری
ada ada teri mauj-e-sharab ho ke rahi

غزل

ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی

جلیلؔ مانک پوری

;

ادا ادا تری موج شراب ہو کے رہی
نگاہ مست سے دنیا خراب ہو کے رہی

غضب تھا ان کا تلون کہ چار ہی دن میں
نگاہ لطف نگاہ عتاب ہو کے رہی

تری گلی کی ہوا دل کو راس کیا آتی
ہوا یہ حال کہ مٹی خراب ہو کے رہی

وہ آہ دل جسے سن سن کے آپ ہنستے تھے
خدنگ ناز کا آخر جواب ہو کے رہی

پڑی تھی کشت تمنا جو خشک مدت سے
رہین منت چشم پر آب ہو کے رہی

ہماری کشتیٔ توبہ کا یہ ہوا انجام
بہار آتے ہی غرق شراب ہو کے رہی

کسی میں تاب کہاں تھی کہ دیکھتا ان کو
اٹھی نقاب تو حیرت نقاب ہو کے رہی

وہ بزم عیش جو رہتی تھی گرم راتوں کو
فسانہ ہو کے رہی ایک خواب ہو کے رہی

جلیلؔ فصل بہاری کی دیکھیے تاثیر
گری جو بوند گھٹا سے شراب ہو کے رہی