ابر پارہ ہوں کوئی دم میں چلا جاؤں گا
نقش بر آب ہوں لہروں میں سما جاؤں گا
دھار پر اپنے تعقل کو چڑھا جاؤں گا
رسم آزادیٔ افکار اٹھا جاؤں گا
یہ عقائد ہیں چھلاوے انہیں افشا کر دے
معنیٔ سیمیا دنیا کو بتا جاؤں گا
سر میں سودوں کے بنا کرتا ہوں تانے بانے
اہل تدبیر کو چکر میں پھنسا جاؤں گا
کیسے ترسیل کروں سامعۂ یاراں تک
شہر آشوب پرندوں کا سنا جاؤں گا
منہ کو بے روح کتابوں سے بصیرت نہ ملی
شہر سے جاتے ہوئے سب کو جلا جاؤں گا

غزل
ابر پارہ ہوں کوئی دم میں چلا جاؤں گا
گیان چند جین