EN हिंदी
ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا | شیح شیری
abr kya ghir ghir ke aaya khul gaya

غزل

ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا

خواجہ محمد وزیر لکھنوی

;

ابر کیا گھر گھر کے آیا کھل گیا
بس ثبات‌ بحر دنیا کھل گیا

راز دل کتنا چھپایا کھل گیا
حال اس دولت سرا کا کھل گیا

حسن‌ عارض عارضی تھا کھل گیا
خط کے آتے ہی لفافہ کھل گیا

آنکھ سے رومال سرکا بعد مرگ
چشم تر کا آج پردا کھل گیا

تم جو بولے ہو گیا ثابت دہن
باتوں ہی باتوں میں عقدہ کھل گیا

کٹ گیا سر حل ہوئی مشکل مری
ناخن خنجر سے عقدہ کھل گیا

بے زبانی باتیں سنوانے لگی
گالیوں پر منہ تمہارا کھل گیا

تھا قلم بند اپنی آزادی کا حال
خط کو جب اس نے لپیٹا کھل گیا

خط پہ خط لائے جو مرغ نامہ بر
بولے ان مرغوں کا ڈربا کھل گیا