ابر کا ٹکڑا ہو جیسے چاند پر ٹھہرا ہوا
یوں ترے مکھڑے پہ زلفوں کا گھنا سایہ ہوا
قرب کی لذت سے آنکھوں میں گھٹا سی چھا گئی
اور یہ دل ہے شرابی کی طرح بہکا ہوا
دل سمجھتا ہے تری رفتار کے اسلوب کو
تو ابھی آیا نہیں اور حشر سا برپا ہوا
آشنائی کی ہوا دل کے چمن میں کیا چلی
ہر گل منظر نظر آیا مجھے دیکھا ہوا
اب کسی غم کا ستارہ بھی نہیں روشن ندیمؔ
کیا مری آنکھوں میں کوئی چاند ہے نکلا ہوا

غزل
ابر کا ٹکڑا ہو جیسے چاند پر ٹھہرا ہوا
صلاح الدین ندیم