ابر دیدہ کا مرے ہو جو نہ اوجھڑ پانی
پھر کہیں جھڑکی لگائے نہ کہیں جھڑ پانی
میرے رونے سے دل سنگ جو آب آب نہ ہو
کوہساروں سے گرے پھر نہ دھڑا دھڑ پانی
یہ اندھیرا یہ شب تار کہاں جاؤ گے
دن ہیں برسات کے گلیوں میں ہے کیچڑ پانی
برق انداز نہ کس طرح کروں نالۂ گرم
جان بیتاب ہے بجلی کی طرح تڑ پانی
رشک لعل لب لعلیں سے جگر خوں یاقوت
شرم دنداں سے ہے موتی کی ہر اک لڑ پانی
تیر باراں مژۂ یار مجھے کرتی ہے
میں سمجھتا ہوں برستا ہے جھڑا جھڑ پانی
میں جو اے شادؔ نہ روؤں صفت ابر بہار
پائیں اک قطرہ کہیں جھیل نہ جھابڑ پانی
غزل
ابر دیدہ کا مرے ہو جو نہ اوجھڑ پانی
شاد لکھنوی