EN हिंदी
ابھی زمین کو سودا بہت سروں کا ہے | شیح شیری
abhi zamin ko sauda bahut saron ka hai

غزل

ابھی زمین کو سودا بہت سروں کا ہے

اسعد بدایونی

;

ابھی زمین کو سودا بہت سروں کا ہے
جماؤ دونوں محاذوں پہ لشکروں کا ہے

کسی خیال کسی خواب کے سوا کیا ہیں
وہ بستیاں کہ جہاں سلسلہ گھروں کا ہے

افق پہ جانے یہ کیا شے طلوع ہوتی ہے
سماں عجیب پر اسرار پیکروں کا ہے

یہ شہر چھوڑ کے جانا بھی معرکہ ہوگا
عجیب ربط عمارت سے پتھروں کا ہے

وہ ایک پھول جو بہتا ہے سطح دریا پر
اسے خبر ہے کہ کیا دکھ شناوروں کا ہے

اتر گیا ہے وہ دریا جو تھا چڑھاؤ پر
بس اب جماؤ کناروں پہ پتھروں کا ہے