ابھی زمین کو سودا بہت سروں کا ہے
جماؤ دونوں محاذوں پہ لشکروں کا ہے
کسی خیال کسی خواب کے سوا کیا ہیں
وہ بستیاں کہ جہاں سلسلہ گھروں کا ہے
افق پہ جانے یہ کیا شے طلوع ہوتی ہے
سماں عجیب پر اسرار پیکروں کا ہے
یہ شہر چھوڑ کے جانا بھی معرکہ ہوگا
عجیب ربط عمارت سے پتھروں کا ہے
وہ ایک پھول جو بہتا ہے سطح دریا پر
اسے خبر ہے کہ کیا دکھ شناوروں کا ہے
اتر گیا ہے وہ دریا جو تھا چڑھاؤ پر
بس اب جماؤ کناروں پہ پتھروں کا ہے
غزل
ابھی زمین کو سودا بہت سروں کا ہے
اسعد بدایونی