ابھی تو موسم ناخوش گوار آئے گا
پھر اس کے بعد پیام بہار آئے گا
خلوص عہد وفا سازگار آئے گا
کبھی تو مرحلۂ اعتبار آئے گا
جس انجمن میں دلوں کے قرار لٹتے ہیں
اس انجمن میں پہنچ کر قرار آئے گا
لب شگفتہ و مے پاش پر شگوفوں پر
کرو گے غور جہاں تک نکھار آئے گا
یہی ہے بزم طرب آفریں تو جاتا ہوں
یہ چارہ گر نے کہا تھا قرار آئے گا
سوال بیش و کم مے نہیں مگر ساقی
کبھی تجھے بھی شعور شمار آئے گا
پکارنے پہ جب آیا تو تیرا دیوانہ
کسی بھی نام سے تجھ کو پکار آئے گا
نثار حسن محبت رہی ہے دیکھو گے
کلی کے ساتھ ہی شاخوں پہ خار آئے گا
جو ہے مزاج بہار چمن سے ناواقف
برائے سیر چمن بار بار آئے گا
جنہیں قیاس و شواہد سے واسطہ ہے انہیں
یقین گردش لیل و نہار آئے گا
یہ پختہ کار تغزل خیال کے بل پر
غزل کے شہر قفس میں گزار آئے گا
غزل
ابھی تو موسم ناخوش گوار آئے گا
شاد عارفی