ابھی توقع بنائے رکھنا ابھی امیدیں جگائے رہنا
بہت گھنا ہے اندھیرا شب کا دلوں کی شمعیں جلائے رہنا
خدا ہی جانے کہ آنے والی رتوں میں کیا ہو جہاں کی حالت
ابھی یہ نغمے نہ بند کرنا ابھی یہ محفل سجائے رہنا
یہ دیکھنا ہے کہ دم ہے کتنا غنیم لشکر کے بازوؤں میں
صفوں کو اپنی سجائے رکھنا سروں کو اپنے اٹھائے رہنا
یہاں کہاں بستیوں کی رونق یہاں تو سناٹا چیختا ہے
اجاڑ صحرا کا یہ سفر ہے دلوں کی دنیا بسائے رہنا
ابھی ہے خطرہ نفس نفس پر ابھی ہیں قاتل گلی گلی میں
شکیلؔ آنکھیں نہ بند کرنا شکیلؔ خود کو جگائے رہنا
غزل
ابھی توقع بنائے رکھنا ابھی امیدیں جگائے رہنا
اطہر شکیل