ابھی نکلو نہ گھر سے تنگ آ کے
ابھی اچھے نہیں تیور ہوا کے
فلک سے میں چلا شبنم کی صورت
زمیں نے رکھ دیا پتھر بنا کے
مرے زخمی لبوں پر کچھ نہیں ہے
سوائے ایک لفظ بے نوا کے
ہماری خامشی نے لاج رکھ لی
نہیں تو ہاتھ کٹ جائے صدا کے
بدن خوشبو کا لرزاں خوف سے ہے
ہوا کو راز دل اپنا سنا کے
سروں کے دیپ ہیں نیزوں پہ روشن
میں کیسے دیکھوں منظر کربلا کے
تمہارے قتل کی خبریں چھپی ہیں
فراقؔ اخبار تو دیکھو اٹھا کے
غزل
ابھی نکلو نہ گھر سے تنگ آ کے
فراق جلال پوری