EN हिंदी
اب یہ بچے نہیں بہلاوے میں آنے والے | شیح شیری
ab ye bachche nahin bahlawe mein aane wale

غزل

اب یہ بچے نہیں بہلاوے میں آنے والے

کوثر مظہری

;

اب یہ بچے نہیں بہلاوے میں آنے والے
کل بھی آئے تھے ادھر کھیل دکھانے والے

ایک مدت سے خموشی کا ہے پہرہ ہر سو
جانے کس اور گئے شور مچانے والے

ہو کا عالم جو تھا پہلے وہ ہے قائم اب بھی
گھومتے تھک گئے بستی کو جگانے والے

عشق کی آگ نے جلووں کو جواں رکھا ہے
لوگ باقی ہیں ابھی ناز اٹھانے والے

اس کا ہر تیر نظر دل میں اتر جاتا ہے
یوں تو دیکھے ہیں بہت ہم نے نشانے والے

جس کو کرنا تھا یہاں کام وہ تو کر بھی گئے
رت جگا کرتے رہے ڈھول بجانے والے

اب تو صحرا میں سمندر کا سکوں در آیا
جب سے عنقا ہوئے ہیں خاک اڑانے والے