EN हिंदी
اب یہاں لوگوں کے دکھ سکھ کا پتا کیا آئے | شیح شیری
ab yahan logon ke dukh-sukh ka pata kya aae

غزل

اب یہاں لوگوں کے دکھ سکھ کا پتا کیا آئے

جاوید شاہین

;

اب یہاں لوگوں کے دکھ سکھ کا پتا کیا آئے
بند ہوں گھر تو مکینوں کی صدا کیا آئے

ڈوبتے دن کی جلو میں نہ سکوں ہے نہ فراغ
شفق شام سے چہروں پہ ضیا کیا آئے

سرد سینوں میں پنپتے ہی نہیں درد کے بیج
ان خرابوں پہ برسنے کو گھٹا کیا آئے

دور ہو کیسے ترے جسم تری جاں کی گھٹن
تنگ بے روزن و در گھر میں ہوا کیا آئے

کھو چکے لطف سحر خیزی گراں خواب مکین
صبح دم بند دریچوں میں صبا کیا آئے

خشک پتے ہیں کہ جھڑتے ہی نہیں پیڑوں سے
کیسے تبدیل ہو رت رنگ نیا کیا آئے

گرم ہنگامہ کرے کون رگوں میں شاہیںؔ
خشک ندیوں میں کوئی موج بلا کیا آئے