اب وفا رنگ تماشا کوئی چہرہ نہ رہا
اپنی آنکھوں کی چمک پر بھی بھروسا نہ رہا
ہم تو آئے تھے ملاقات کریں گے تجھ سے
یہ خبر کب تھی کہ تو اپنے ہی جیسا نہ رہا
لوگ کہتے ہیں کہ ہر چیز سمجھتی ہے ہمیں
میں بہت خوش ہوں کہ اب کوئی ادھورا نہ رہا
اس کے ملنے کی خوشی اس کے بچھڑنے کا قلق
ایک گردش تھی کہ وہ آ گیا ٹھہرا نہ رہا
اس نے کاغذ کو بھی پھولوں کی طرح چوم لیا
پیش خوشبو ہی کریں دوسرا تحفہ نہ رہا
غزل
اب وفا رنگ تماشا کوئی چہرہ نہ رہا
اقبال اشہر قریشی