اب تو نہیں آسرا کسی کا
اللہ ہے اپنی بیکسی کا
او آنکھ بدل کے جانے والے
کچھ دھیان کسی کی عاجزی کا
بیمار کو دیجئے تسلی
یہ وقت نہیں جلی کٹی کا
آپس میں ہوئی جو بد گمانی
مشکل ہے نباہ دوستی کا
بالیں سے کوئی اٹھا یہ کہہ کر
انجام بخیر ہو کسی کا
غم کا بھی قیام کچھ نہ ٹھہرا
رونا کیا روئیے خوشی کا
پہونچا ہی دیا کسی گلی تک
اللہ رے زور بے خودی کا
آخر کو شراب رنگ لائی
چھپتا نہیں راز مے کشی کا
اندھیرا حفیظؔ ہو رہا ہے
بجھتا ہے چراغ زندگی کا
غزل
اب تو نہیں آسرا کسی کا
حفیظ جونپوری