اب سرگزشت ہجر سنانے بھی آئے گا
جو روٹھ کر گیا ہے منانے بھی آئے گا
بن جائیں گی قرار یہی بے قراریاں
غم دے گیا ہے جو وہ مٹانے بھی آئے گا
رکھے گا رکھنے والا مری بے کسی کی لاج
لطف و کرم کی شان دکھانے بھی آئے گا
سنتا نہیں جو اب مرا احوال واقعی
اک روز لے کر اپنے فسانے بھی آئے گا
آتش بجاں ہیں خبر سے بے فکر و مطمئن
جس نے لگائی ہے وہ بجھانے بھی آئے گا
اس کو خلوص دل کی کشش کھینچ لائے گی
آئے گا تو وہ آنے بہانے بھی آئے گا
روپوش ہو سکیں گی کہاں خود نمائیاں
آئینہ رو جمال دکھانے بھی آئے گا
نکھرے گی یہ فضائے مکدر بھی اے رشیؔ
ماحول کا مزاج ٹھکانے بھی آئے گا

غزل
اب سرگزشت ہجر سنانے بھی آئے گا
رشی پٹیالوی