EN हिंदी
اب نہ کچھ سننا نہ سنانا رات گزرتی جاتی ہے | شیح شیری
ab na kuchh sunna na sunana raat guzarti jati hai

غزل

اب نہ کچھ سننا نہ سنانا رات گزرتی جاتی ہے

سراج لکھنوی

;

اب نہ کچھ سننا نہ سنانا رات گزرتی جاتی ہے
ختم ہے اب بے کہے فسانہ رات گزرتی جاتی ہے

جلدی کیا ہے برق تبسم دھواں بنے گا خود آنسو
دن ہو لے پھر آگ لگانا رات گزرتی جاتی ہے

طشت طلائی میں سورج کے ایک اک اشک پرکھ لینا
وقت سحر الزام لگانا رات گزرتی جاتی ہے

رہ نہیں سکتے مجرم آنسو قیدی حبابی شیشے میں
وقت پہ چھلکے گا پیمانہ رات گزرتی جاتی ہے

بستر پر سرخ انگاروں کے دھوئیں کی چادر اوڑھے ہوئے
سوتا رہتا ہے پروانہ رات گزرتی جاتی ہے

زندہ خون کے آنسو ہیں یہ تھوڑی دیر تڑپنے دے
وقت سحر مٹی میں ملانا رات گزرتی جاتی ہے

شبنم سے پھولوں کے کٹورے خالی ہو جائیں گے سراجؔ
اشکوں سے بھر لو پیمانہ رات گزرتی جاتی ہے