اب مجھے گلشن سے کیا جب زیر دام آ ہی گیا
اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا
سن مآل سوز الفت جب یہ نام آ ہی گیا
شمع آخر جل بجھی پروانہ کام آ ہی گیا
طالب دیدار کا اصرار کام آ ہی گیا
سامنے کوئی بحسن انتظام آ ہی گیا
کوشش منزل سے تو اچھی رہی دیوانگی
چلتے پھرتے ان سے ملنے کا مقام آ ہی گیا
راز الفت مرنے والے نے چھپایا تو بہت
دم نکلتے وقت لب پر ان کا نام آ ہی گیا
کر دیا مشہور پردے میں تجھے زحمت نہ دی
آج کو ہونا ہمارا تیرے کام آ ہی گیا
جب اٹھا ساقی تو واعظ کی نہ کچھ بھی چل سکی
میری قسمت کی طرح گردش میں جام آ ہی گیا
حسن کو بھی عشق کی ضد رکھنی پڑتی ہے کبھی
طور پر موسیٰ سے ملنے کا پیام آ ہی گیا
دیر تک باب حرم پر رک کے اک مجبور عشق
سوئے بت خانہ خدا کا لے کے نام آ ہی گیا
رات بھر مانگی دعا ان کے نہ جانے کی قمرؔ
صبح کا تارہ مگر لے کر پیام آ ہی گیا
غزل
اب مجھے گلشن سے کیا جب زیر دام آ ہی گیا
قمر جلالوی