EN हिंदी
اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے | شیح شیری
ab lab pe wo hangama-e-fariyaad nahin hai

غزل

اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے

فانی بدایونی

;

اب لب پہ وہ ہنگامۂ فریاد نہیں ہے
اللہ رے تری یاد کہ کچھ یاد نہیں ہے

آتی ہے صبا سوئے لحد ان کی گلی سے
شاید مری مٹی ابھی برباد نہیں ہے

اللہ بچائے اثر ضبط سے ان کو
بیداد تو ہے شکوۂ بیداد نہیں ہے

اپنی ہی بدولت ہے نشیمن کی خرابی
منت کش بے دردئ صیاد نہیں ہے

آمادۂ فریاد رسی ہے وہ ستم گر
فریاد کہ اب طاقت فریاد نہیں ہے

دنیا میں دیار دل فانیؔ کے سوا ہائے
کوئی بھی وہ بستی ہے جو آباد نہیں ہے