اب کیا کہیں کسی سے یہ اپنی زباں سے ہم
بے زار ہو چکے ہیں فریب جہاں سے ہم
نظارۂ جمال کا عالم عجیب تھا
مدہوش و بے خبر تھے وہاں بے زباں سے ہم
اب حال اضطراب طبیعت نہ پوچھیے
تڑپے ہیں عمر بھر ترے درد نہاں سے ہم
یہ زور برق و باد یہ طوفان الاماں
محروم ہو نہ جائیں کہیں آشیاں سے ہم
جن کی مہک سے روح پہ طاری ہے بے خودی
وہ پھول چن رہے ہیں ترے گلستاں سے ہم
تعمیر نو ہے پردۂ تخریب میں نہاں
سمجھے ہیں راز دہر یہ دور جہاں سے ہم
منزل پہ ہو رہی ہیں قیامت کی شورشیں
غافل پڑے ہوئے ہیں مگر کارواں سے ہم
ناصح! خیال ترک محبت سے فائدہ
واقف نہیں ہیں کیا الم جاوداں سے ہم
اے نقشؔ مختصر یہ حقیقت ہے موت کی
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم
غزل
اب کیا کہیں کسی سے یہ اپنی زباں سے ہم
مہیش چندر نقش