اب کسی کو نہیں مرا افسوس
جان کر یہ بہت ہوا افسوس
دکھ نہیں یہ جہاں مخالف ہے
ساتھ اپنے نہیں خدا افسوس
لڑ کے برباد ہو گئے جب ہم
ساتھ مل کر کیا گیا افسوس
جب بھی خوشیوں نے در پہ دستک دی
سامنے آ کھڑا ہوا افسوس
ہم فقط جنگ ہی نہیں ہارے
حوصلہ بھی بکھر گیا افسوس
اک غزل اور ہو گئی ہم سے
شعر کوئی نہیں ہوا افسوس
آپ کو میں نے ٹھیس پہنچائی
میں نے بے حد برا کیا افسوس
خوبصورت بہت نظر آئے
جب مرا دل نہیں رہا افسوس
مجھ کو خود پر یقیں نہیں جاناں
تم نے مجھ پر یقیں کیا افسوس
میں نے باقی نہیں رکھا کچھ بھی
آپ نے کچھ نہیں کیا افسوس
تو ہے شرمندہ علم ہے لیکن
تو نظر سے اتر گیا افسوس
آدمی تو سراجؔ اچھا تھا
اتنی جلدی گزر گیا افسوس
فاتحہ پڑھ کہ پھول رکھ مجھ پر
آ گیا ہے تو کچھ جتا افسوس
اس نے برباد کر دیا مجھ کو
اس کو اس کا نہیں ذرا افسوس
مجھ کو تم پر بہت بھروسہ تھا
تم نے مایوس کر دیا افسوس
اے خدا ہے حسیں تری دنیا
پر مرا جی اچٹ گیا افسوس
غزل
اب کسی کو نہیں مرا افسوس
سراج فیصل خان