EN हिंदी
اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی | شیح شیری
ab kaun baat rah gai ye baat bhi gai

غزل

اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی

مبارک عظیم آبادی

;

اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی
یعنی کبھی کبھی کی ملاقات بھی گئی

کہتے ہیں وہ کہ جذبۂ دل اب فریب ہے
جب دل گیا تو دل کی کرامات بھی گئی

جو کچھ کیا وہ تو نے کیا اضطراب شوق
سو آفتیں بھی آئیں مری بات بھی گئی

دستار آپ کی جو ہوئی رہن میکدہ
توبہ ہماری قبلۂ حاجات بھی گئی

وعدے کی کون رات قیامت کا دن نہیں
آثار صبح کہتے ہیں یہ رات بھی گئی

مانا کہ دن سدھارے مبارکؔ شباب کے
رنگیں طبیعتوں سے ملاقات بھی گئی