اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی
یعنی کبھی کبھی کی ملاقات بھی گئی
کہتے ہیں وہ کہ جذبۂ دل اب فریب ہے
جب دل گیا تو دل کی کرامات بھی گئی
جو کچھ کیا وہ تو نے کیا اضطراب شوق
سو آفتیں بھی آئیں مری بات بھی گئی
دستار آپ کی جو ہوئی رہن میکدہ
توبہ ہماری قبلۂ حاجات بھی گئی
وعدے کی کون رات قیامت کا دن نہیں
آثار صبح کہتے ہیں یہ رات بھی گئی
مانا کہ دن سدھارے مبارکؔ شباب کے
رنگیں طبیعتوں سے ملاقات بھی گئی
غزل
اب کون بات رہ گئی یہ بات بھی گئی
مبارک عظیم آبادی