اب اس سے بڑھ کے کیا ناکامیاں ہوں گی مقدر میں
میں جب پہنچا تو کوئی بھی نہ تھا میدان محشر میں
الٰہی نہر رحمت بہہ رہی ہے اس میں ڈلوا دے
گنہ گاروں کے عصیاں باندھ کر دامان محشر میں
کھلے گیسو تو دیدار خدا بھی ہو گیا مشکل
قیامت کا اندھیرا چھا گیا میدان محشر میں
شریک کثرت مخلوق تو کیوں ہو گیا یا رب
تری وحدت کا پردہ کیا ہوا میدان محشر میں
قیامت تو ہماری تھی ہم آپس میں نبٹ لیتے
کوئی پوچھے خدا کیوں آ گیا میدان محشر میں
کسی کا آبلہ پا قبر سے یہ پوچھتا اٹھا
کہیں تھوڑے بہت کانٹے بھی ہیں میدان محشر میں
الٰہی درد کے قصے بہت ہیں وقت تھوڑا ہے
شب فرقت کا دامن باندھ دے دامان محشر میں
نہ اٹھتے کشتگان ناز ہرگز اپنی تربت سے
تری آواز شامل ہو گئی تھی صور محشر میں
تہہ مدفن مجھے رہتے زمانہ ہو گیا مضطرؔ
کچھ ایسی نیند سویا ہوں کہ اب جاگوں گا محشر میں
غزل
اب اس سے بڑھ کے کیا ناکامیاں ہوں گی مقدر میں
مضطر خیرآبادی