اب دھوپ مقدر ہوئی چھپر نہ ملے گا
ہم خانہ بدوشوں کو کہیں گھر نہ ملے گا
آوارہ تمناؤں کو گر سمت نہ دو گے
بھٹکی ہوئی امت کو پیمبر نہ ملے گا
سورج ہی نظر آئے گا نیزے پہ ہمیشہ
سچائی کے شانوں پہ کبھی سر نہ ملے گا
الفاظ مسائل کے شراروں سے بھرے ہیں
غزلوں میں مری حسن کا پیکر نہ ملے گا
ہارو گے جو ہمت تو ڈبو دے گا سمندر
ساحل تمہیں کشتی سے اتر کر نہ ملے گا
اس باغ میں کھلتے ہیں ابھی جھلسے ہوئے پھول
اس باغ میں خوشبو کو ابھی گھر نہ ملے گا
یہ سوچ کے آیا ہے ترے شہر میں انجمؔ
آئینوں کے اس شہر میں پتھر نہ ملے گا
غزل
اب دھوپ مقدر ہوئی چھپر نہ ملے گا
فاروق انجم