اب چلو دیکھ لیں یہی کر کے
اپنے ماضی پہ شاعری کر کے
لے گئی راتیں پھر اجالوں کو
پھر سے باتیں بڑی بڑی کر کے
راتیں مجھ میں سکون کتنا ہے
ہم نے دیکھا یہ بندگی کر کے
زندگی اک کتاب تھی پھر بھی
لوگ گزرے غلط سہی کر کے
لوٹنا ہے مجھے وہیں یاروں
ان کے ہی نام زندگی کر کے
فیضؔ سودا نہیں کیا ہم نے
ان اندھیروں سے روشنی کر کے
غزل
اب چلو دیکھ لیں یہی کر کے
فیض جونپوری