اب بھی پردے ہیں وہی پردہ دری تو دیکھو
عقل کا دعویٰ بالغ نظری تو دیکھو
سر پٹکتے ہیں کہ دیوار خمستاں ڈھا دیں
حضرت شیخ کی آشفتہ سری تو دیکھو
آج ہر زخم کے منہ میں ہے زبان فریاد
میرے عیسیٰ کی ذرا چارہ گری تو دیکھو
قید نظارہ سے جلووں کو نکلنے نہ دیا
دوستوں کی یہ وسیع النظری تو دیکھو
ان سے پہلے ہی چلے آئے جناب ناصح
میرے نالوں کی ذرا زود اثری تو دیکھو
ہے تغافل کہ توجہ نہیں کھلنے پاتا
حسن معصوم کی بیداد گری تو دیکھو
مجھ سے ہی پوچھ رہا ہے مری منزل کا پتہ
میرے رہبر کی ذرا راہ بری تو دیکھو
ان کو دے آئے ہیں خود اپنی محبت کے خطوط
غم گساروں کی ذرا نامہ بری تو دیکھو
دونوں ہی راہ میں ٹکراتے چلے جاتے ہیں
عشق اور عقل کی یہ ہم سفری تو دیکھو
جاوداں قرب کے لمحات ہوئے ہیں مظہر
طائر وقت کی بے بال و پری تو دیکھو
غزل
اب بھی پردے ہیں وہی پردہ دری تو دیکھو
مظہر امام