EN हिंदी
اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا | شیح شیری
ab bhi aazad fazaon ka na imkan nikla

غزل

اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا

کرار نوری

;

اب بھی آزاد فضاؤں کا نہ امکاں نکلا
باب گلشن جسے سمجھے در زنداں نکلا

اتنا نزدیک مرے تو بھی کبھی آ نہ سکا
جتنا نزدیک مرے یہ غم دوراں نکلا

ان کی محفل سے میں لے آیا تمنا ان کی
لوگ سمجھے تھے کہ میں بے سر و ساماں نکلا

رک کے اک اشک نے کیا کیا نہ جلایا ہم کو
دل کا سورج بھی چراغ تہ داماں نکلا

ہم نے دیکھا تو کوئی عشق کا طالب ہی نہ تھا
ہم نے پوچھا تو ہر اک صاحب ایماں نکلا

جب بھی معلوم کیا اپنی تباہی کا سبب
اپنے ہاتھوں میں خود اپنا ہی گریباں نکلا

خود نمائی بھی عجب ظلم ہے نوریؔ مجھ پر
ہائے وہ وقت کہ میں خود سے گریزاں نکلا