اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
یہ بھی بہت ہے تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
صحرائے زندگی میں کوئی دوسرا نہ تھا
سنتے رہے ہیں آپ ہی اپنی صدائیں ہم
اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب
اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم
تو اتنی دل زدہ تو نہ تھی اے شب فراق
آ تیرے راستے میں ستارے لٹائیں ہم
وہ لوگ اب کہاں ہیں جو کہتے تھے کل فرازؔ
ہے ہے خدا نہ کردہ تجھے بھی رلائیں ہم
غزل
اب اور کیا کسی سے مراسم بڑھائیں ہم
احمد فراز