اب اپنے دیدہ و دل کا بھی اعتبار نہیں
اسی کو پیار کیا جس کے دل میں پیار نہیں
نہیں کہ مجھ کو طبیعت پہ اختیار نہیں
ہر اک جام سے پی لوں وہ بادہ خوار نہیں
ہر ایک گام پہ کانٹوں کی ہیں کمیں گاہیں
شباب آہ شگوفوں کی رہ گزار نہیں
بھری ہوئی ہے وہ کام و دہن میں تلخی زیست
کہ لب پہ جام محبت بھی خوش گوار نہیں
نہ میرے اشکوں سے دامن پہ تیرے آئے گی آنچ
یہ شعلہ رو ہیں مگر فطرت شرار نہیں
کہیں چھپائے سے چھپتی بھی ہے حقیقت غم
وہ غم ہی کیا جو مسرت سے آشکار نہیں
میں تیری یاد سے بہکا چکا ہوں یوں دل کو
کہ اب مجھے تری فرقت بھی ناگوار نہیں
مرے سکوں کے لئے کیوں یہ کوشش پیہم
قرار چھیننے والے تجھے قرار نہیں
جہان عقل کے نفرت کدوں میں بٹ جاتا
ہزار شکر محبت پہ اختیار نہیں
کسی کی لوٹ کے راحت خوشی نہیں ملتی
خزاں کے ہاتھ میں سرمایۂ بہار نہیں
نگاہ دوست کو اس کی بھی ہے خبر لیکن
وہ راز جس کا ابھی دل بھی رازدار نہیں
توجہ نگہہ یار کا سبب معلوم
دل گرفتۂ ملاؔ ابھی شکار نہیں
غزل
اب اپنے دیدہ و دل کا بھی اعتبار نہیں
آنند نرائن ملا