EN हिंदी
اب اے بے درد کیا اس کے لئے ارشاد ہوتا ہے | شیح شیری
ab ai be-dard kya is ke liye irshad hota hai

غزل

اب اے بے درد کیا اس کے لئے ارشاد ہوتا ہے

سیماب اکبرآبادی

;

اب اے بے درد کیا اس کے لئے ارشاد ہوتا ہے
پھر اپنی خاک سے پیدا دل برباد ہوتا ہے

تصور جب انیس خاطر ناشاد ہوتا ہے
جہان دل تری تصویر سے آباد ہوتا ہے

اسیران وفا گھبرائیں کیوں تجویز زنداں سے
یہیں تو امتحان فطرت آزاد ہوتا ہے

جگہ ملتی نہیں جس کو شب غم محشر دل میں
وہ ہنگامہ لب خاموش میں آباد ہوتا ہے

بہار آئی ہے استقبال کرنے باب زنداں تک
نہیں معلوم سیمابؔ آج کون آزاد ہوتا ہے