اب آپ رہ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
ہم بھی سفر جاں کا ارادہ نہیں رکھتے
پینا ہو تو اک جرعۂ زہراب بہت ہے
ہم تشنہ دہن تہمت بادہ نہیں رکھتے
اشکوں سے چراغاں ہے شب زیست سو وہ بھی
کوتاہی مژگاں سے زیادہ نہیں رکھتے
یہ گرد رہ شوق ہی جم جائے بدن پر
رسوا ہیں کہ ہم کوئی لبادہ نہیں رکھتے
ہر گام پہ جگنو سا چمکتا ہے جو دل میں
ہم اس کے سوا مشعل جادہ نہیں رکھتے
سرخی نہیں پھولوں کی تو زخموں کی شفق ہے
دامان طلب ہم کبھی سادہ نہیں رکھتے
غزل
اب آپ رہ دل جو کشادہ نہیں رکھتے
شکیب جلالی