اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی
کہو جی شب کہاں تم نے بسر کی
سحر کو دفن کر کے جائیے گا
مصیبت اور ہے اک رات بھر کی
قفس میں بند کرنا تھا جو تقدیر
ندامت کیوں مجھے دی بال و پر کی
گزر جائے گی جو گزرے گی ہم پر
چلو جی راہ لو تم اپنے گھر کی
ابھی تو جان لے لے اے غم عشق
مصیبت کون اٹھائے عمر بھر کی
خدا کے واسطے یارو سنبھالو
کہ پھر شدت ہوئی درد جگر کی
ترشح آنسوؤں کا ہو رہا ہے
گھٹا امڈی ہوئی ہے چشم تر کی
نہ بولیں گے تمہارے خوف سے ہم
ہلائیں گے مگر زنجیر در کی
نہ آنا تم اجازت مانگنے کو
نہ دکھلانا ہمیں صورت سفر کی
کوئی دم کا بکھیڑا رہ گیا ہے
جگر تک برچھیاں پہنچیں نظر کی
ہمیں فصاد کا منہ دیکھنا ہے
اٹھانی ہے مصیبت نیشتر کی
حباب آسا ہے لطف زندگانی
حقیقت کچھ نہیں ہوتی بشر کی
نسیمؔ اب دل کتاں کی طرح ہے چاک
محبت میں کسی رشک قمر کی
غزل
اب آئے ہو صدا سن کر گجر کی
نسیم دہلوی