آیا تو دل وحشی دربند نیاز آیا
برگشتہ مقدر تھا سر گشتہ ناز آیا
اک حرف شکایت پر کیوں روٹھ کے جاتے ہو
جانے دو گئے شکوے آ جاؤ میں باز آیا
نو وارد ہستی اٹھ کس وہم میں بیٹھا ہے
ہوتی ہے اذاں سن لے چل وقت نماز آیا
برداشتہ خاطر تھا عشرت کی حقیقت سے
میں دام مصیبت میں آسودۂ راز آیا
راحت گہہ تربت سے تو نے تو بہت روکا
مرمر کے مگر میں بھی اے عمر دراز آیا
بھولا ہوا پھرتا ہے دل اپنی حقیقت کو
لے اے غم ہستی لے اک محو مجاز آیا
کل حی علیٰ کی سی آواز اک آئی تھی
ناطقؔ نے کہا سن کر ہاں بندہ نواز آیا
غزل
آیا تو دل وحشی دربند نیاز آیا
ناطق گلاوٹھی