آیا نہ آب رفتہ کبھی جوئبار میں
کیسے قرار آئے دل بے قرار میں
ہنگام صبح عید میں بھی وہ مزا کہاں
جو لطف مل گیا ہے شب انتظار میں
بجلی گری تھی کب یہ کسی کو خبر نہیں
اب تک چمن میں آگ لگی ہے بہار میں
جب تک بکھر نہ جائے تری زلف عنبریں
نکہت کہاں سے آئے نسیم بہار میں
فرصت ملی ہے دل کو نشیمن کی فکر سے
پھر برق کوندنے لگی ہر شاخسار میں
پھر کس کی یاد آئی کہ انوارؔ آج کل
موتی پرو رہا ہوں گریباں کے ہار میں
غزل
آیا نہ آب رفتہ کبھی جوئبار میں
انوار الحسن انوار