EN हिंदी
آیا ہے خیال بے وفائی | شیح شیری
aaya hai KHayal-e-be-wafai

غزل

آیا ہے خیال بے وفائی

نسیم دہلوی

;

آیا ہے خیال بے وفائی
کیوں جی وہی گفتگو پھر آئی

او بت نہ سنے گا کوئی میری
کیا تیری ہی ہو گئی خدائی

روکو روکو زبان روکو
دینے نہ لگو کہیں دہائی

صحرا میں ہوئی گہر فشانی
کام آئی مری برہنہ پائی

چاہا لیکن نہ بچ سکے ہم
آخر تیغ نگاہ کھائی

توڑا کانٹوں نے آبلوں کو
برباد ہوئی مری کمائی

بوسہ ہم آج مانگتے ہیں
کرتے ہیں قسمت آزمائی

توبہ شکنی شباب میں کر
کب تک اے جان پارسائی

کاٹا دن تو تڑپ تڑپ کر
آفت کی رات سر پر آئی

رخصت ہے نسیمؔ جلد دیکھو
کر لو گر ہو سکے بھلائی