آوارہ سا گلیوں میں جو میں گھوم رہا ہوں
ظاہر ہے تری دید سے محروم رہا ہوں
پھر آنکھیں بچھائے ہوئے ہوں راہ میں اس کی
پھر ہر کسی رہرو کے قدم چوم رہا ہوں
یہ ہے مری بے داریٔ قلبی کی ہی اک وضع
ہر چند تری بزم میں میں جھوم رہا ہوں
غداریٔ الفت تو نہیں ہے مرا شیوہ
اس جرم کے ہی خیال سے معصوم رہا ہوں
خوش قسمتیٔ اہل جنوں ہے مرا حصہ
آسائش دنیاوی سے محروم رہا ہوں
میں بارگہ حسن سے مایوس نہ آتا
غم ہے ولے تقدیر میں مغموم رہا ہوں
ہوں کیا کہ جو وہ قدر بھی کرتے مری رہبرؔ
اک حرف ہوں اور حرف بھی موہوم رہا ہوں

غزل
آوارہ سا گلیوں میں جو میں گھوم رہا ہوں
جتیندر موہن سنہا رہبر