آتش تب نے کی ہے تاب شروع
تو بھی کر دیدۂ پر آب شروع
کیوں نہ ابتر ہو آنسوؤں سے چشم
کی ہے لڑکوں نے یہ کتاب شروع
شب میں چاہا کروں کچھ اس سے سوال
بن سنے ہی کیا جواب شروع
سرفۂ خشک بھی ہے اک حیلہ
کرنی زاہد کو تھی شراب شروع
نام سنتے ہی اس کا بس قائمؔ
پھر کیا تو نے اضطراب شروع
غزل
آتش تب نے کی ہے تاب شروع
قائم چاندپوری